بچوں کو ڈپریشن اور ذہنی دباؤ سے کیسے محفوظ رکھیں

اج کل کے دور میں ہر کوئی اپنے بچے سے سکول میں جاتے ہوئے یہ ہی فرمائش کرتا ہے کہ اس کے بچے کی فرسٹ پوزیشن ائے اور اس سے بچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ معاشرے میں اچھی طرح نشونما نہیں کر سکتا۔
بچے کو ایک طریقے کے ساتھ سمجھانا چاہیے کہ ایا وہ اپنی تعلیم پر دھیان دے اج کل کے دور میں والدین کے مسلسل دباؤ سے بچہ ذہنی دباؤ اور ایگزائٹی کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ خود کشی کرنے تک پہنچ جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ منشیات کی طرف بھی راغب ہونا شروع ہو جاتا ہے مسلسل ذہنی دباؤ کی وجہ سے بچے کا دماغ اس طرح گرو نہیں کر پاتا۔
اگر اپ اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرواتے ہیں تو اپ کو چاہیے کہ ان کی ہر ضروریات کا خیال رکھیں کہ وہ کس سیکشن میں خوش ہیں کہ اس سیکشن میں وہ خوش نہیں ہے ان کے دوست کیسے ہیں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ملتے جلتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان ٹی وی کی مشہور ایکٹریس سعدیہ امام کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے ان کو بتایا کہ وہ اس شخص میں خوش نہیں ہیں لہذا ان کا سیکشن تبدیل کیا جائے تو ان ان انہوں نے کہا کہ میں نے سکول میں جا کر اپنے بیٹی کا سیکشن تبدیل کروایا جس کے بعد میری بیٹی اب دوسرے سیکشن میں خوش ہے یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں کی۔
لہذا اج کے ٹیکنالوجی کے دور میں اپ کو چاہیے کہ اپ اپنے بچوں کو کہیں کہ اگر ان کو کوئی بات کرتے ہوئے اس ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے تو وہ اپ کو میسج پہ وہ بات کنوے کر دیں اگر وہ فیس ٹو فیس وہ بات کنویں نہیں کر سکتے اس سے بچہ ذہنی دباؤ اور ایگزائٹی جیسے بیماریوں سے بچا رہتا ہے اور اس کی نشوونما بھی اچھی ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں کئی ایسے بچے ہیں جنہوں نے محض نمبروں کی وجہ سے خود کشیاں کی ہیں اور وہ اس دنیا سے چلے گئے یہ ماں باپ کا بہت نقصان ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو یہاں تک مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ خود کشی جیسے کام کر گزرتے ہیں۔